اسلام آباد، 14 اکتوبر ۔
پاکستان میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب صوبہ پنجاب کے ایک اسپتال کی چھت سے پانچ سو لاوارث لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان لاشوں کے کئی اعضا غائب ہونے کی وجہ سے انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کا خدشہ ہے۔ حکومت نے چھ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے، تاکہ پورے معاملے کی مکمل چھان بین کی جاسکے۔ بلوچ رہنماو¿ں نے اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے معاملے کی تحقیقات کی اپیل کی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں نشتر اسپتال کی چھت سے پانچ سو لاشیں مسخ شدہ حالت میں پڑی ہوئی ہیں۔ جب ان لاشوں کی چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان لاشوں کے کئی اعضاغائب تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ تمام لاشوں کے سینوں کو درمیان سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ ان لاشوں سے کئی انسانی اعضاء غائب پائے گئے ہیں۔ اس لیے غیر قانونی طور پر انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے کا امکان ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ گردے، جگر، دل وغیرہ اعضاء نکال کر لاشیں اسپتال کی چھت پر پھینک دی گئیں۔
اس حوالے سے اطلاع ملنے پر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے مشیر چوہدری زمان گرجر نے اسپتال کا دورہ کیا۔اسپتال کی چھت پر پانچ سو لاشیں دیکھ کر وہ خود بھی حیران رہ گئے۔ انہوں نے تمام میتوں کی آخری رسومات کو یقینی بنانے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے محکمہ صحت کے افسران کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کریں اور ان حالات میں قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ حکومت کی سختی کے بعد جنوبی پنجاب کے انچارج محکمہ صحت نے پورے معاملے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ یہ ٹیم معاملے کی مکمل چھان بین کرے گی اور اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گی۔
یہ اسپتال صوبہ پنجاب کی نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ہے۔ یہاں کے ایک طالب علم نے دعویٰ کیا کہ وہ ان لاشوں کی مدد سے طبی تجربات کر رہے ہیں۔ ان لاشوں کا مکمل استعمال اور ان کی کٹائی وغیرہ ہو چکی تھی۔ اب انہیں ان لاشوں سے ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکالنے کے لیے اسپتال کی چھت پر رکھا گیا تھا۔ انکوائری کمیٹی ان تمام پہلوو¿ں کا بھی جائزہ لے گی۔ دوسری جانب مشتعل بلوچ رہنماو¿ں نے پاکستان میں علیحدہ بلوچستان کے مطالبے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے سمیت عالمی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپتال کی چھت سے ملنے والی زیادہ تر لاشیں ان لوگوں کی ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ طویل عرصے سے لاپتہ ہیں۔