نئی دہلی ، 21 ستمبر
تینوں افواج کے سربراہوں نے مشرقی لداخ میں ڈھائی سال سے جاری تعطل کے درمیان متفقہ طور پر چین کو ایک سخت چیلنج قرار دیا ہے۔ آرمی چیف نے اعتراف کیا کہ ہر وقت تیار رہنے کا سبق مشرقی لداخ سے سیکھا ہے ، اس لیے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنا ضروری ہے۔ آئی اے ایف کے سربراہ نے پڑوس میںماحول محفوظ نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے ہائبرڈ جنگ کے لیے تیار رہنے کا انتباہ دیا ہے۔ چین کو ایک مشکل چیلنج قرار دیتے ہوئے بحریہ کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ ہم نے نہ صرف ہندوستان کی زمینی سرحدوں پر بلکہ سمندری حدود میں بھی اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔یہ اتفاق ہے کہ آرمی چیف جنرل منوج پانڈے ، فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل وی آر چودھری اور بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار نے ایک ہی دن ڈھائی تین الگ الگ پروگراموں میں حصہ لے کر مشرقی لداخ میں ڈھائی سال سے چل رہے تنازعات کے درمیان چین کو ایک ہی آواز میں مشکل چیلنج بتایا ہے۔ آرمی چیف جنرل منوج پانڈے نے کہا کہ مشرقی لداخ میں سرحد کے ساتھ تعطل نے ہر وقت اعلیٰ سطح کی تیاری اور انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کا درس دیا ہے۔ آرمی چیف کے ’انڈیا ڈیفنس کنکلیو‘میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ شمالی سرحد کے ساتھ اروناچل میں انفراسٹرکچر کو بھی بہتر کرنا ہوگا۔
جنرل پانڈے نے کہا کہ گوگرہ ہاٹ اسپرنگ میں پی پی 15 سے فوجیوں کے انخلاءکے باوجود، ابھی بھی دو اسٹینڈ آف پوائنٹس، ڈیپسانگ اور ڈیمچوک موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم ان کا بھی کوئی حل نکال لیں گے۔ آرمی چیف نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات پوری طرح قابو میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں خاص طور پر مشرقی لداخ میں بنیادی ڈھانچے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ہوابازی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل ایئر لفٹ کے لیے فارورڈ ایریاز میں ہیلی پیڈ بنائے جا رہے ہیں۔
انڈیا ڈیفنس کانکلیو میں ہی ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں سیکورٹی کا مثالی ماحول نہیں ہے۔ ایسے میں ہمیں ہائبرڈ جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں ملک کو کئی خطرات کا سامنا ہے ، ایسے میں ہائبرڈ جنگوں میں مہارت حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے، ہندوستانی فضائیہ کے لیے روایتی ، ذیلی روایتی اور غیر روایتی ڈومینز میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ضروری ہے۔ ہمارے دشمنوں نے بہت سے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے ، جو ہمارے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جنگ میں ہو، یہ امن کے وقت بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے خطرات اور چیلنجز کا جواب دینے کے لیے دشمن پر تکنیکی مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ ہندوستان ایک ذمہ دار طاقت ہے ، لیکن موجودہ حالات میں، خاص طور پر روایتی ، غیر روایتی اور شریک روایتی شعبوں میں فضائیہ کی صلاحیت کو بڑھانا ضروری ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز ، سینسرز ، ہتھیار ، نیٹ ورکنگ سب سے اہم ہیں ، مستقبل کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اندرون ملک تحقیق ، ترقی اور پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ جنگ سے متعلق دنیا میں جن نئی ٹیکنالوجیز ، پلیٹ فارمز ، ہتھیاروں ، سسٹمز اور پالیسیوں پر اس وقت کام ہو رہا ہے وہ موجودہ ٹیکنالوجیز اور ہتھیاروں کو کم کارآمد تو بنا سکتے ہیں ، لیکن انہیں بیکار بھی بنا سکتے ہیں۔اسی طرح راجدھانی دہلی میں منعقدہ ’انڈیاز نیول ریوولیوشن: بیکمنگ این اوشین پاور‘ تقریب میں بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار نے چین کو ایک مشکل چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے نہ صرف ہندوستان کی زمینی سرحدوں پربلکہ سمندری علاقے میں بھی اپنی موجودگی بڑھادی ہے۔ تاہم ، ہندوستانی بحریہ بحر ہند کے علاقے میں باقاعدہ نگرانی کر رہی ہے۔ انہوں نے ملک کے لیے روایتی اور دیگر سیکورٹی چیلنجز کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقتصادی رکاوٹوں بالخصوص اپنی بحریہ کے باوجود اپنی فوج کو جدید بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاک بحریہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہ روایتی فوجی چیلنجز ہر وقت برقرار رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ایک بڑا سیکورٹی خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں ان نادیدہ دشمنوں سے ایک قدم آگے رہ کر مسلسل نئی حکمت عملی اپنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی بحریہ 2047 تک بحری جہازوں اور آبدوزوں کی تیاری سے لے کر اسپیئرز اور ہتھیاروں تک مکمل طور پر’ خود انحصار‘ ہو جائے گی۔ ہمارے پاس مکمل طور پر دیسی بحریہ ہوگی ، چاہے وہ بحری جہاز ہو ، آبدوزیں ، ہوائی جہاز ، بغیر پائلٹ کے نظام یا ہتھیار وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مکمل طور پر ’ خود انحصار‘بحریہ ہوں گے، یہی ہمارا مقصد ہے۔